Wah kiya Martaba Hay


پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اس حِکایت سے جہاں اللہ پاک کی بارگاہ میں حُضُور غَوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا مَقام و مَرتبہ مَعْلُوم ہوا ، وہیں یہ بھی پتا چلا کہ جس شَخْص کو اللہ والوں سے ادنٰی سی نِسْبَت بھی حاصِل ہوجائے اس کے تو وارے ہی نیارے ہوجاتے ہیں ، جیسا کہ خُود سرکارِ بغداد حُضُورِ غَوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اِرْشاد فرمایا کہ میرے رَبّ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ تیرے مَدْرَسے سے گُزرنے والے مُسَلمان کے عذاب میں کمی کردوں گا۔ سُبْحٰنَ اللہ! ذرا سوچئے کہ مَدْرَسے کے قریب سے گُزرنے والے شَخْص کو حُضُورِ غَوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے کتنی مَعْمُولی سی نِسْبَت حاصِل ہے مگر اِس کے باوُجُود اس پر رَحْمَتِ الٰہی نازِل ہورہی ہے تو پھر اُن خُوش نصیبوں پر فضلِ خُداوندی کا کِیا عالَم ہوگا جو حُضُورِ غَوث پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے مُریدوں میں شامِل ہوگا۔

یقیناً غوثِ پاک پر اللہ پاک کی خاص رحمتوں کا سایہ ہے ، وہ لوگ جو غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دامن میں آ جائیں ، وہ بھی غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے طفیل ان رحمتوں کے حق دار بن جاتے ہیں۔ آئیے اسی بارے میں غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے تین (3)فرمان سنتے ہیں :

(1)چنانچہ شہنشاہِ بغداد ، حُضُور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھے ایک بَہُت بڑا رجسٹر دیا گیا جس میں میرے مُصاحِبوں اور میرے قِیامت تک ہونے والے مُریدوں کے نام دَرج تھے اورکہا گیا کہ یہ سارے افراد تمہارے حوالے کردئیے گئے ہیں ۔ فرماتے ہیں : میں نے داروغۂ جہنَّم سے اِستِفسار کیا(یعنی پوچھا) : کیا جہنَّم میں میرا کوئی مُرید بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں۔ غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مزید فرمایا : مجھے اپنے پروَردگارکی عزّت وجلال کی قسم! میرا دستِ حمایت میرے مُرید پر اس طرح ہے ، جس طرح آسمان زمین پر سایہ کئے ہوئے ہے ۔ اگر میرا مُرید اچّھا نہ بھی ہوتو کیا ہوا ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں تو اچّھا ہوں!مجھے اپنے پالنے والے کی عزّت وجلال کی قسم! میں اُس وقت تک اپنے ربِّ کریم کی بارگاہ سے نہ ہٹوں گا جب تک اپنے ایک ایک مُرید کو داخلِ جنَّت نہ کروالوں ۔ ( بہجۃ الاسرار ، ذکر فضل اصحابہ وبشراہم ، ص۱۹۳)

(2)سرکارِ بغداد حضورِ غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اللہ پاک نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مُریدوں اورمیرے دوستوں کو جنت میں داخِل کرے گاتو جو کوئی اپنے آپ کو میرا مُرید کہے میں اسے قَبول کر کے اپنے مُریدوں میں شامل کر لیتا ہوں اور اُس کی طرف اپنی توجُّہ رکھتاہوں ۔ میں نے مُنْکَر نَکِیْرسے اس بات کا عہد لیا ہے کہ وہ قبر میں میرے مُریدوں کو نہیں ڈرائیں گے۔ ( بہجۃ الاسرار ، ذکر فضل اصحابہ وبشراہم ، ص۱۹۳ملخصا)

(3)حضرت شیخ ابوالحسن علی قرشیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضور غوثِ اعظم دستگیر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : مجھے ایک کاغذ دیا گیا جو اتنا بڑا تھا کہ جہاں تک نگاہ پہنچے اس میں میرے اصحاب اور مُریدین کے نام تھے جو قیامت تک ہونے والے تھے اور مجھ سے کہا گیا کہ سب کو تمہارے صدقے بخش دیا گیا۔ ( بہجۃ الاسرار ، ذکر فضل اصحابہ وبشراہم ، ص۱۹۳)

خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوثِ اعظم کا ہمیں دونوں جہاں میں سہارا غوثِ اعظم

بَلِیّات و غم و اَفکار کیوں کر گھیر سکتے ہیں سَروں پر نام لیووں کے ہے پنجہ غوثِ اعظم کا

ہماری لاج کس کے ہاتھ ہے بغداد والے کے مصیبت ٹال دینا کام کس کا غوثِ اعظم کا

جو اپنے کو کہے میرا ، مُریدوں میں وہ داخل ہے یہ فرمایا ہوا ہے میرے آقا غوثِ اعظم کا

ندا دیگا منادی حشر میں یوں قادریوں کو کِدھر ہیں قادری کرلیں نظارہ غوثِ اعظم کا

فِرِشتو روکتے ہو کیوں مجھے جنت میں جانے سے یہ دیکھو ہاتھ میں دامن ہے کس کا غوثِ اعظم کا

جمیلِ قادری سو جاں سے ہو قربان مرشِد پر بنایا جس نے تجھ جیسے کو بندہ غوثِ اعظم کا

(قبالۂ بخشش ، ص۵۲ تا ۵۶)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اِس دورِ پُر فِتن میں امیر اہلسنّت ، حضرت عَلّامہ محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذات ہمارے لئے بہت بڑی نِعْمَت ہے ، جو آپ دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مُرید ہوتا ہے ، آپ اُسے غَوثِ پاک کے دامنِ کرم سے وابستہ کردیتے ہیں۔ جی ہاں شَیْخِ طریقت ، امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سِلْسَلہ قادِریہ میں ہی مُرید کرواتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ جب بھی موقع مِلے فوراً شَیْخِ طریقت امیر اہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ذریعے غوثِ پاک کے مُریدوں میں شامِل ہوجائیں ۔ اللہ پاک ہم سب کو غَوثِ پاک بلکہ تمام اَوْلِیاءُ اللہ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن سے سچّی مَحبَّت و عَقِیْدت رکھنے کی تَوْفِیْق عطا فرمائے ۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

(1)ہوا میں اڑکر غائب ہوگیا

شیخ عبد اللہ محمد حُسَینی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیبیان فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اور شیخ علی بن ہِیْتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی حضور غوثِ اعظم علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم کی خدمت میں حاضِر ہوئے تو دیکھا کہ ایک جوان دروازے پر پڑا ہے، اس نے ہمیں دیکھتے ہی کہا: میرے لئے حضور غوثِ اعظم سے سفارش کردینا، جب ہم اندر پہنچے تو حضور غوثِ اعظم علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم سے شیخ علی بن ہِیْتی علیہ رحمۃ اللہ القَوینے اس شخص کا ذکر کیاتو انہوں نے فرمایا:ہم نے اسے تمہیں دے دیا۔ شیخ علی بن ہیتی علیہ رحمۃ اللہ القَوینے اس جوان سے آکر یہ بیان کیا کہ میری سفارش تمہارے حق میں قبول ہوگئی ہے، وہ شخص فوراًہَوا میں اُڑ کر غائب ہوگیا، پھر ہم نے حضور غوثِ اعظم علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم سے اس معاملے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا: وہ مرد صاحبِ حال تھا، اِدھر سے گزرااور دل میں یہ خیال لایا کہ میری مثل یہاں کوئی نہیں ہے، ہم نے اس کا حال سَلَب کرلیا(چھین لیا) اگر شیخ علی بن ہِیْتی نہ آتے تو وہ یوں ہی پڑا رہتا۔ (بہجۃ الاسرار، ص142، برکاتِ قادریت، ص57)

(2)اللہ کے حکم سے مرجا

حضرتِ سیِّدُنا ابو العباس احمد بن محمد رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ بیان فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا غوثِ اعظم علیہِ رحمۃُ اللہِ الاَکْرم جامع مسجِد منصوری تشریف لے گئے جب واپس آئے تو چادر مبارک اُتاری اور ایک بچھو کو نکالااور فرمایا: مُوْتِیْ بِاِذْنِ اللّٰہِ تَعالٰی یعنی اللہ کے حکم سے مرجا، اسی وقت وہ مرگیا، پھر ارشاد فرمایا: اے احمد! جامع مسجِد منصوری سے یہاں تک اس نے مجھے 60مرتبہ ڈنک مارا ہے۔ (برکاتِ قادریت، ص66)

(3)قافلہ ڈاکوؤں سے بچ گیا

حضرتِ سیِّدُنا ابوعَمْر و عثمان اور حضرتِ سیِّدُنا ابومحمدعبدالحق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما فرماتے ہیں کہ ہم حُضُور سیِّدُنا غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کے دربار میں حاضِر تھے،آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے وُضُو کرکے کھڑاویں (لکڑی کی بنی ہوئی چپلیں) پہنیں اور دو رکعتیں پڑھیں، بعدِ سلام ایک زور دار نعرہ لگایا اور ایک کھڑاؤں ہوا میں پھینکی، پھر دوسرا نعرہ مارا اور دوسری کھڑاؤں پھینکی ، دونوں چپلیں آناً فاناًہماری نگاہوں سے غائب ہوگئیں، پھر تشریف فرماہوئے، ہیبت کے سبب کسی کو پوچھنے کی جُرّأت نہ ہوئی، کچھ دن کے بعد عَجَم سے ایک قافلہ حاضرِ بارگاہ ہوا اور کہا: اِنَّ مَعَنَا لِلشَّیْخِ نَذْرًا یعنی ہمارے پاس شیخ عبد القادر کی ایک نذر ہے، ہم نے غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہسے اس نذر کے لینے میں اِذن طَلَب کیا ،آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے فرمایا: لے لو۔تاجروں نے ایک مَن ریشم ،کچھ کپڑے کے تھان، سونا اور حُضُورغوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہکی وہ چپلیں جو اس روز ہوا میں پھینکی تھیں پیش کیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا: یہ چپلیں تمہارے پاس کہاں سے آئیں؟کہا: ہم سفر میں تھے کہ کچھ راہزن (یعنی ڈاکو)جن کے دو سردار تھے ہم پر آپڑے ہمارے مال لُوٹے اور کچھ آدمی قتل کئے اور ایک نالے میں تقسیم کو اُترے، ہم نے (آپس میں ) کہا: بہتر ہوکہ اس وقت ہم اپنے شیخ حضور غوثِ اعظم کو یاد کریں اور نجات پانے پر ان کیلئے کچھ مال نذر مانیں، ہم نے حضورِغوثِ پاک کو یاد کیا ہی تھا کہ دو عظیم نعرے سنے جن سے جنگل گونج اٹھا اور ہم نے راہزنوں کو دیکھا کہ ان پر خوف چھاگیا ،ہم سمجھے ان پر کوئی اور ڈاکو آپڑے، وہ آکر ہم سے بولے، آؤ اپنا مال لے لو اور دیکھو ہم پر کیا مصیبت پڑی ہے، وہ ہمیں اپنے دونوں سرداروں کے پاس لے گئے ہم نے دیکھا وہ مَرے پڑے ہیں اور ہر ایک کے پاس ایک چپل پانی سے بھیگی رکھی ہے، پھر ڈاکوؤں نے ہمارا سارا مال لوٹا دیا ۔ (بہجۃ الاسرار ، ص132ملخصاً)

قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا

کہا ہم نے جس وقت یاغوثِ اعظم

(ذوق نعت،ص126)