Oliya Karam Ki Shaan


اللہ عزوجل کے محبوب بندوں رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت وعقیدت کاتعلق قائم رکھتے ہوئے ان کے نقش قدم پرچلنایقینابہت بڑی سعادت کا حامل ہے کیونکہ یہ وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں کہ جن پراللہ عزوجل نے اپنے انعام واکرام کی بارشیں نازل فرماتے ہوئے انہیں قرآن پاک میں اپنے''انعام یافتہ بندے''قراردیا۔چنانچہ سورۃالنساء میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا (النساء:۶۹)

ترجمہ کنزالایمان:اورجواللہ اوراس کے رسول کاحکم مانے تواسے ان کا ساتھ ملے گاجن پراللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اورصدیق اورشہیداورنیک لوگ یہ کیاہی اچھے ساتھی ہیں۔

ایک دوروہ بھی تھاکہ جب بزرگان دین کی صحبت اختیارکرنالازم اوران کی خدمت کوسعادتِ عظمیٰ تصورکیاجاتاتھا۔لیکن آہستہ آہستہ اسلام دشمن طاقتوں اورگستاخانِ محبوبانِ ربُ العلی کی مذموم سازشوں کے نتیجے میں اسلاف کرام رحمہم اللہ سے اس پاکیزہ تعلق کی مضبوطی میں کمی واقع ہونے لگی اور طرح طرح کی خُرافات زبان زد عام ہونے لگیں اور فتنے جڑ پکڑنے لگے ۔ الحمدللہ عزوجل مختلف علماء کرام دامت فیوضہم نے ان سازشوں کے نتیجے میں بزرگانِ دین سے بڑھتی ہوئی بے رغبتی کااندازہ فرماکراپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے محبوبانِ بارگاہِ الٰہی عزوجل سے عوام کاتعلق دوبارہ مضبوط کرنے کے لئے تحریری وتقریری اَقدام کئے۔ علمائے کرام دامت فیوضہم کی ان کوششوں کی برکت سے دشمنان اسلام کی سازشیں دم توڑنے لگیں اور عقیدتوں کا گلستان پھر سے ہرا بھرا ہوگیا۔

(۱)۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل قرآنِ مجیدمیں ارشادفرماتاہے:

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(یونس: ۶۲)

ترجمہ کنزالایمان: سن لو بےشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔

(۲)۔۔۔۔۔۔ایک اورجگہ ارشادفرماتاہے:

قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِۚ-یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ(آل عمران:۷۳)

ترجمہ کنزالایمان:تم فرمادوکہ فضل تواللہ ہی کے ہاتھ ہے جسے چاہے دے۔

(۳)۔۔۔۔۔۔سرکارمدینہ،قرارِقلب وسینہ،باعثِ نزولِ سکینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کافرمانِ عالیشان ہے:

اُطْلبُوْا الْخَیْرَ وَالْحَوَائِجَ مِنْ حِسَانِ الْوُجُوْہِ یعنی بھلائی اور اپنی حاجتیں خوبصورت چہرے والوں سے طلب کرو۔(المعجم الکبیر،رقم۱۱۱۱۰،ج۱۱،ص۶۷)

(۴)۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کے محبوب،دانائے غیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کافرمان ذیشان ہے: مَنْ عَادٰی ِللہِ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَاللہَ بِالْمُحَارَبَۃِ یعنی جواللہ عزوجل کے کسی دوست سے دشمنی رکھے تحقیق اس نے اللہ عزوجل سے اعلانِ جنگ کردیا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب من ترجی لہ السلامۃ من الفتن،رقم۳۹۸۹،ج۴،ص۳۵۰)

(۵)۔۔۔۔۔۔حضوراکرم،نورمجسم،سرکاردوعالم،شہنشاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا:''کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی سے بڑھ کرکسی اورچیزسے میراتقرب حاصل نہیں کرسکتا(فرائض کے بعدپھروہ)نوافل سے مزیدمیراقرب حاصل کرتاجاتاہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتاہوں اور میں اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس کو ضرور دوں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے ضرور پناہ دوں گا ۔'' (صحیح بخاری،کتاب الرقاق ،رقم ۶۵۰۲،ج۴،ص۲۴۸)

(۶)۔۔۔۔۔۔امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ الباری اپنی معرکۃالآراتفسیر ''تفسیرِکبیر''میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں: اَوْلِیَاءُ اللہِ لَایَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنْقِلُوْنَ مِنْ دَارٍاِلٰی دَارٍ یعنی بے شک اللہ عزوجل کے اولیاء مرتے نہیں بلکہ ایک گھرسے دوسرے گھرمنتقل ہوجاتے ہیں۔''(التفسیرالکبیر،پ۴،آل عمران:۱۶۹،ج۳،ص۴۲۷)

ارشاد باری تعالٰی ہے: قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(النمل:40)

ترجمہ اُس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تو وہ اپنی ذات کے لئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔