Ek Eham Madni Phool


حضرت سلیمان علیہ الصّلٰوۃو السَّلام نے عظیم الشّان تخت کے دور دراز کے علاقے سے چند لمحوں میں پہنچنے کے عظیم واقعے پر فوراً اِس کمال کو اللّٰہ تعالٰی کی رحمت کی طرف منسوب کیاکہ یہ میرے رب کا فضل ہے۔ یہی انبیاء و صالحین کی سنّت و عادت ہے اور یہی حکمِ خداوندی ہے کیونکہ بندے کو اپنی کسی خوبی و کمال پر خود پسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، یہ خود ایک مذموم صفت ہونے کے ساتھ دیگر کئی خرابیوں کی بنیاد ہے:اِس سے تکبر پیدا ہوتا ہے، آدمی اپنے گناہوں کو بھولنے اور خامیوں کو نظر انداز کرنے لگتا ہے جس سے اِصلاح کی امید کم ہوجاتی ہے، یونہی خود پسند آدمی اپنی عبادات اور نیک اعمال کو یاد رکھتا اور اُن پر اِتراتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اللّٰہ تعالٰی سے غافل ہوجاتا ہے اور اُس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف، اِخلاص سے دور، دوسروں سے تعریف کا طالب ہوکر ریاکاری کی تباہ کاری میں جاپڑتا ہے۔الامان والحفیظ۔ قرآن، حدیث اور تاریخ میں انبیاء علیہم الصّلٰوۃو السَّلام اور سلف صالحین کے حالات و واقعات پڑھیں تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کمالات و فضائل کو عطائے خداوندی قرار دیتے تھے اور بزرگانِ دین کا معمول تھا کہ کتاب تصنیف فرماتے تو اس میں ہونے والی خطاؤں کو اپنی طرف منسوب کرتے جبکہ غلطی اور خطا سے محفوظ رہنے کو اللّٰہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کرتے۔ اللّٰہ تعالٰی ہمیں قرآن کے علوم و انوار سے مالا مال فرمائے،اٰمین۔