- غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات
- اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کرو
- ایک مومن کوکیساہوناچاہیے
- اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی کامقام
- طریقت کے راستے پرچلنے کانسخہ
- رضائے الہٰی عَزَّوَجَلَّ
- ہرحال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کاشکراداکرو
- محبت کیاہے
- توَکُّل کی حقیقت
- توکل اور اخلاص
- دُنیاکودل سے نکال دو
- شکر کیا ہے؟
- صبرکی حقیقت
- صدق کیاہے؟
- وفا کیا ہے ؟
- وجدکیاہے؟
- خوف کیاہے؟
حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اُستاذشاگردوں پر شفقت کرے اور اُنہیں اپنے بیٹوں جیسا سمجھے۔ اُستاذ کا مقصود یہ ہو کہ وہ شاگردوں کو آخرت کے عذاب سے بچائےگا۔ (احیاء العلوم ، جلد 1ص191) حُضُورغوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہدَرس وتدریس ، تصنیف وتالیف ، وَعظ و نصیحت اور اِس کے علاوہ مختلف علمی شعبوں میں انتہائی مہارت رکھتے تھے ، مگر خاص طور پر فتویٰ نویسی میں تو آپ کو وہ کمال حاصل تھا کہ اُس دور کے بڑے بڑے عُلماء ، فقہاء اور مفتیانِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام بھی آپ کے لَاجواب فتوؤں سے حیران رہ جاتے تھے ۔ شیخ ا مام مُوَفَّقُ الدِّین بن قُدامَہرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ ہم نےدیکھا کہ شیخ سَیِّد عبدُ القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں (بغداد)پر علم وعمل اور فتویٰ نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے۔ (بہجۃالاسرار ، ص225)آپ کی عِلمی مہارت کا یہ عالم تھا کہ اگرآپ سے اِنتہائی مشکل مسائل بھی پوچھے جاتےتو آپ اُن مسائل کا نہایت آسان اور خوبصورت جواب دیتے ، آپ نے درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں تقریباً (33) سال دینِ اسلام کی خدمت کی ، اِس دوران جب آپ کے فتاویٰ علمائے عراق کے پاس لائے جاتے تو وه آپ کے جواب پر حيران رہ جاتے۔(بہجۃ الاسرار ، ص 225ملتقطا و ملخصاً )
شیخ عبدُالحق محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں: حضرت شیخ (عبدُالقادر جیلانی ) رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی جس میں غیرمسلم، آپ کے دَسْتِ مبارک پر دولتِ ایمان سے مُشرَّف نہ ہوتے اور نافرمان، ڈاکو، گُمراہ اور بَد مذہب اَفراد، آپ کے ہاتھ پر تائب نہ ہوتے۔ جب پانچ سو (500)سے زیادہ غیر مسلم اور لاکھوں سِیاہ کار آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر تائب ہو چکے اور بَداَعمالیوں سے باز آچکے تھے تو دیگر لوگوں کے بارے میں کیاکہاجا سکتا ہے؟(یعنی ہر ایک ہی آپ کےفرامینِ مُبارکہ سے مُسْتَفِیْد ہوتا تھا) (اخبار الاخیار، ص13)
غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہکے مبارک ملفوظات ہرعام و خاص کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں، آئیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں سے7فرامین ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)رضائے الٰہی پر راضی رہئےایک مسلمان کو اللہ کریم کی رضا پر راضی رہنا چاہئے کہ نعمتیں بھی اُسی کی دی ہوئی ہیں اور آزمائشیں بھی اُسی کی طرف سے آتی ہیں، مگر انسان نعمتیں سمیٹتے وقت تو ربِّ کریم کی رضا پر راضی رہتا ہے لیکن آزمائش کے وقت شِکْوَہ و شکایت زبان پر لے آتا ہے۔حُضور غوثِ پاک شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ربِّ کریم کی رضا پر راضی رہنے کے بارے میں فرماتے ہیں:(اے اللہ کے بندے!) اگر تیری قسمت میں نعمت کا ملناہے تو وہ تجھے ضرور مل کر رہے گی، چاہے تُو اس کو طلب کرے یا ناپسند کرے! اور اگر تیری قسمت میں مصیبت و تکلیف ہے اور تیرے لئے اس کا فیصلہ ہوچکا ہے، تُوخواہ اسے ناپسند کرے یا اس سے بچنے کی دعا کرے تو بھی وہ مصیبت تجھ پر آ کر رہے گی۔ اپنے تمام اُمور اللہ پاک کے حوالے کردے، اگر تجھے نعمتیں عطا ہوں تو شکر ادا کر اور اگر آزمائش کا سامنا ہو تو صبر کر۔(فتوح الغیب مع قلائدالجواہر، ص24 ماخوذاً)
(2)خوفِ خدا:پیارے اسلامی بھائیو!گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کے لئے خوفِ خدا کا ہونا بے حَد ضَروری ہے، کیونکہ جب تک خوفِ خدا نہیں ہوگا گناہوں سے بچنا اور نیک اعمال کرنا دُشوار ہے۔حُضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے اللہ کے بندے! تُو اللہ کریم سے بےخوف نہ ہو بلکہ خوف کو لازم پکڑلے، اگر اللہ پاک جنَّت اور جہنم کو پیدا نہ فرماتا تب بھی اس کی ذات اس بات کی مستحق تھی کہ اس سے خوف کیا جائے اور اسی سے اُمید رکھی جائے۔ اس کی اطاعت کر، اس کے احکام بَجالا اور اس کی ممنوعات(یعنی منع کردہ کاموں) سے باز رہ، تُواس کی بارگاہ میں توبہ کر اور اس کے سامنے خُوب خُوب عاجزی اور گِریہ و زاری کر اور جب تُو صِدقِ دل سے توبہ کرے گا اور اَعمالِ صالحہ پر ہمیشگی اِختیار کرے گا تو اللہ کریم تجھے نَفْع عطافرمائے گا۔(الفتح الربانی، ص75 ملخصاً)
(3)مبلغ کو باعمل ہونا چاہئے: اگر نیکی کی دعوت دینےاور بُرائی سے منع کرنے والا خود باعمل ہوگا تو اس کی بات میں بھی اثر ہوگا، لہٰذااپنی بات میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے ہمیں اپنی عملی حالت بھی دُرُست کرنی ہوگی۔ حُضور غوثِ پاک شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں:خودعمل کئے بغیر، دوسروں کونصیحت کرنا، کچھ اہمیت (Importance) نہیں رکھتا۔ خودعمل نہ کرکے دوسروں کو نصیحت کرنا ایسا ہی ہے جیسے بغیر دروازے کا گھر ہو اور اس میں ضروریاتِ خانہ داری بھی نہ ہوں اور ایسا خزانہ ہے جس میں سے کچھ خرچ نہ کیا جائے اور یہ ایسے دعوے کی طرح ہے جس کا کوئی گواہ نہیں۔ (الفتح الربانی، ص78 ملخصاً) (4)فکرِآخرت:فکرِآخرت سے غافل لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئےحُضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ اِرْشاد فرماتے ہیں:(اے نادان انسان!) ذراغورکر!جب اس فَنا ہونے والی دُنیا کا حُصُول بغیر محنت و مَشقّت کے ممکن نہیں ہے (یعنی دُنیا کی فانی نعمتوں کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے) تو وہ چیز جو اللہ کریم کے پاس ہے (اورہمیشہ رہنے والی ہے) اس کا بغیررِیاضت ومحنت کے ملنا کس طرح ممکن ہے؟(الفتح الربانی، ص222ملخصاً)
(4)فکرِآخرت:فکرِآخرت سے غافل لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئےحُضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ اِرْشاد فرماتے ہیں:(اے نادان انسان!) ذراغورکر!جب اس فَنا ہونے والی دُنیا کا حُصُول بغیر محنت و مَشقّت کے ممکن نہیں ہے (یعنی دُنیا کی فانی نعمتوں کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے) تو وہ چیز جو اللہ کریم کے پاس ہے (اورہمیشہ رہنے والی ہے) اس کا بغیررِیاضت ومحنت کے ملنا کس طرح ممکن ہے؟(الفتح الربانی، ص222ملخصاً)
(5)توبہ:انسان سے گُناہ ہوہی جاتے ہیں، لیکن اس پر ہمیشگی اِخْتیار کرلینا اور توبہ کو بالکل بُھول جانا بڑی بَدنصیبی ہے۔ پِیروں کے پِیر، روشن ضمیر،شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے مسلمانو! جب تک زندگی کا دروازہ کُھلا ہے اس کوغنیمت سمجھو کہ وہ عنقریب تم پر بند کردیا جائے گا ، جب تک نیک عمل کرنے کی قُدرت رکھتے ہو،اس کو غنیمت سمجھو اور جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اسے غنیمت سمجھواور اس میں داخِل ہوجاؤ۔(الفتح الربانی، ص29)
(6)خوابِ غفلت سے بیداری: موت سے غافل اور لمبی امیدیں لگائے رکھنے والے شخص کو حُضُورغوثِ پاک شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اے اللہ پاک کے بندے!اپنی اُمیدوں کے چراغ گُل کر! اپنی حرص کی چادرکو لپیٹ! اور دنیا سے رُخْصَت ہونے والے کی سی نماز پڑھا کر (یعنی ہر نماز کو آخری نماز سمجھ کر پڑھا کر) یاد رکھ! مؤمن کے لئے یہ مُناسِب نہیں ہے کہ وہ اس حال میں سوئے کہ اس کی تحریر شُدہ وَصیّت اس کے سرہانے نہ رکھی ہو۔اے بندے! تیرا کھانا پینا، اہل و عیال میں رہنا سہنا اور اپنے دوست اَحْباب سے مِلنامِلانا ایک رخصت ہونے والے شخص کی طرح ہونا چاہئے، اس لئے کہ وہ شخص کہ جس کی زندگی کی ڈور اور تمام اِختیارات دوسرے کے قبضے میں ہوں تو اس کو اسی طرح دُنیا میں رہنا چاہئے۔(الفتح الربانی، ص220ملخصاً)
(7)نفس کی ہلاکتوں سے کیسے بچیں:نَفْس کی ہلاکتوں سے بچنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے حُضُورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نَفْس بُرائی کا ہی مشورہ دیتاہے، یہ اس کی فِطرت (Nature) ہے، ایک مُدّت کے بعد یہ اِصلاح پذیر ہوگا،تم پر لازِم ہے کہ ہر وقت نَفْس سے مُجاہَدہ کرتے رہو(یعنی اس کی مُخالَفت پر کمر بستہ رہو)۔ اپنے نفس سے ہمیشہ کہتے رہوکہ تیری نیک کمائی تجھے فائدہ دے گی اور تیری بُری کمائی تیرے لئے وَبال ثابت ہوگی، کوئی دوسرا تیرے ساتھ نہ تو عمل کرے گا اور نہ ہی اپنے اعمال میں سے کچھ دے گا۔ نیک اعمال کرتے رہنا اور نفس سے مُجاہَدہ کرنا بے حَد ضَروری ہے،تیرا دوست وہی ہے جو تجھے بُرائی سے روکے اور تیرا دُشْمن وُہی ہے جوتجھے گمرا ہ کرے۔ جب تک نَفْس نَجاستوں اور بُری خواہشات سے پاک نہ ہوگا،اسے اللہ کریم کی بارگاہ کا قُرب کیسے حاصِل ہوسکتا ہے؟ اپنے نَفْس کی خواہشات اور اُمیدوں کو ختم کردے، جبھی تیرا نَفْس تیرا مُطیع ہوگا۔ (الفتح الربانی، ص139، 140ماخوذاً)
(8)آپ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان آج بھی آپ کے کروڑوں عقیدت مندوں اور مریدوں کی توجہ کا مرکز اور محور ہے کہ جو کوئی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کردوں گا اور جو کوئی میرے وسیلے سے اللّٰہ تعالٰی سے اپنی حاجت طلب کرے گا تو اللّٰہ تعالٰی اس کی حاجت کو پورا فرما دے گا۔(بہجۃ الاسرار، ص:197)
(9)ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ شُکر کیا ہوتا ہے؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اور اسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللّٰہ تعالٰی کے احسان کو مانے اور اپنا یہ ذہن بنائے کہ شکر کرنے کا حق ادا نہیں پایا۔(بہجۃ الاسرار، ص:234)
(10)حضور غوثِ اعظمرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ شروع شروع میں سوتے جاگتے مجھ پر بَس اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ(نیکی کی دعوت دینے اوربُرائی سے منع کرنے) کی دُھن سوار رہتی اور میں تبلیغِ قرآن وسنّت کے لئے اِس قدر بے قرار رہتا کہ خود پر بھی اختیار نہ رہتا اور میرے پاس دو تین آدمی بھی ہوتے تو میں اُنہیں ہی قرآن و سنّت کی باتیں سُنانے لگتا پھر میرے پاس لوگوں کا اِتنا کثیر ہجوم ہونے لگا کہ مجلس میں جگہ باقی نہ رہی۔ چنانچہ میں عیدگاہ چلا گیا اور وَعظ ونصیحت کرنے لگا ، وہاں بھی جگہ تنگ ہو گئی تو لوگ منبر شہر سے باہر لے گئے اور بے شمار مخلوق سوار اورپیدل ہو کرآتی اور اجتماع کے باہر اِرد گرد کھڑی ہو کر وَعظ سُنتی حتی ٰ کہ سننے والوں کی تعداد ستّر ہزار (70000) کے قریب پہنچ گئی۔