Ghous e Azam Bataor e khair khuwa


دَر ودیوار پَر نُور کی چادر تَنی تھی، ہدایت کے تارے صحابۂ کرام، ماہِ رسالت تاجدارِ ختم نبوت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گِرد جُھرمٹ کئے تھے، نُورانی زبان سے نُورانی ارشاد ہوا: اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهٖ وَلِاَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ وَلِعَامَّتِهِمْ یعنی دین خیرخواہی ہےاللہ کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے اماموں اور عام مسلمانوں کی۔(السنۃ لابن ابی عاصم، ص255، حدیث: 1127)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کامل خیر خواہی میں سے یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اوررسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےمتعلق خالص اسلامی عقیدہ رکھیں، اسلامی حُکّام کی جائز اطاعت، علما کی تعظیم اور مسلمانوں کی خدمت کریں۔ (مراٰۃ المناجیح،ج6،ص557-558، ماخوذاً) مسلمانوں کے عظیم خیر خواہ: پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب سے ملنے والے ”خیر خواہی“ کے قیمتی موتیوں کو صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان اوربُزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین نے اپنے اعمال وکردار کی زینت بنائے رکھا، ان موتیوں کی چمک اُن کے اخلاق وعادات سے جھلکتی رہی اور ان کی روشنی سے ہرزمانے کے ہر طبقے کے افراد فائدہ اٹھاتے رہے۔ حُضورِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرمبھی مسلمانوں کے عظیم خیرخواہ اور بڑے ہمدرد تھے، آپ کی سیرتِ مبارکہ میں مسلمانوں کی خیرخواہی و ہمدردی کے کئی واقعات ملتے ہیں، (1)بھٹکے ہوؤں کی خیر خواہی:غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرمخود فرماتے ہیں:”اللہتعالٰی نے چاہا کہ میرے ذریعے مخلوقِ خدا کو نفع ملے چنانچہ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زیادہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا،ایک لاکھ سے زیادہ لُٹیروں اور دھوکے بازوں نے توبہ کی۔“(قلائد الجواہر، ص19) (2)دینی طلبہ کی خیر خواہی:حضرت ابن قدامہ حنبلی علیہ رحمۃ اللہ الوَ لی بیان کرتے ہیں کہ ہم علمِ دین کی غرض سے حضور ِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی آخری عمر میں حاضرِ خدمت ہوئےتو آپ نے اپنے مدرسے میں ہماری رہائش کا بندوبست کیا۔آپ ہمارا بہت خیال رکھتے تھے، کبھی ایسا ہوتا کہ اپنے بیٹے حضرت یحییٰ(رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) کو بھیج کر ہمارے لئے روشنی و چراغ کا انتظام کردیا کرتے تھےاوربعض اوقات تو خاص اپنے گھر سے ہمارے لئے کھانا بھجوا دیا کرتے تھے۔ (سیر ِاعلام النبلاء، ج15،ص183) (3)غریب کی خیر خواہی:غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ایک محلّے میں جانا ہوا، آپ نے وہاں کے سب سے غریب گھر میں قیام فرمایا، معزّزینِ محلّہ نے بہت اصرار کیا کہ ”حضور! ہمارے گھر کو رونق بخشیں“ لیکن آپ وہیں مقیم رہے، چنانچہ اِرادت مندوں نے نذرانے پیش کئے،گائے، بکریاں، غلّہ، سونا، چاندی اور بہت سارا سامانِ زندگی وہاں جمع ہوگیا، آپ یہ سارا سامان اُنہی غریب میزبانوں کو عطا فرما کر تشریف لے گئے اور وہ غریب گھر انہ آپ کے قدموں کی برکت سے محلّہ کا امیر گھرانہ ہوگیا۔ (بہجۃ الاسرار، ص198، ملخصاً) (4)محنت کشوں کی خیر خواہی: غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں سونا نَذر کیا جاتا تو اُسے خادِم کے ہاتھوں لوگوں میں تقسیم کردیا کرتے اور فرماتے: ”سبزی فروش کو دے دو! نانبائی کو دے دو۔“ (بہجۃ الاسرار، ص199) (5)بھوکوں کی خیر خواہی :آپ کے گھر کے دروازے پر غلام روٹیوں کا تھال لے کر کھڑا ہوجاتا اور آواز لگاتا تھا کہ کس کو کھانا چاہیے؟ کس کو روٹی چاہیے؟ (الروض الزاہر، ص71)

کیوں نہ قاسم ہو کہ تُو ابنِ ابی القاسم ہے

کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا

(حدائق بخشش،ص20)