Ghouse Pak Aur ilme Deen


غوثِ پاک علیہ رحمۃ اللہ الرَّزَّاقنے ابتدائی تعلیم قصبہ جیلان میں حاصل کی، پھر مزید تعلیم کے لئے سِن 488ہجری میں 18سال کی عمر میں بغداد تشریف لائے اور اُس وقت کے شُیوخ و اَئمہ، بُزُرگانِ دین اور محدِّثین کی خدمت کا قصد فرمایا۔ اوَّلاً قراٰن کو رِوایت و دِرایت اورتجوید و قراءت کے اَسرارو رموز کے ساتھ حاصل کیااور زمانے کے بڑے محدِّ ثین اور اَہلِ فضل وکمال اورمستند عُلَمائے کِرام سے سِماعِ حدیث فرماکر علوم کی تحصیل و تکمیل فرمائی، حتّی کہ تمام اُصولی، فروعی، مذہبی اور اَخلاقی علوم میں عُلَمائے بغداد سے ہی نہیں بلکہ تمام ممالکِ اِسلامیہ کے عُلَما سے سبقت لے گئے اور سب نے آپ کو اپنا مرجَع بنا لیا۔ (اخبار الاخیار،ص36ملخصاً)

علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ ان سے مختلف علوم و فنون پڑھا کرتے تھے۔ دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد مختلف قراءتوں کے ساتھ قرآنِ مجید پڑھاتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ للشعرانی،ج۱،ص۱۷۹)

علامہ شیخ عبدُالحق محدِّث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے عِلمی کمالات کے متعلق ایک رِوایت نقل کرتے ہیں کہ ایک روز کسی قاری نے آپ کی مجلس میں قراٰنِ مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اُس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک پھر دو اور اِس کے بعدتین یہاں تک کہ حاضرین کے عِلم کے مطابق گیارہ معنی اور دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد 40تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضِرین متعجب ہوگئے۔(اخبار الاخیار،ص11)(اُمِّ خضر عطّاریہ مدنیہ، جامعۃُ المدینہ للبنات)

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: بلادِ عجم سے ایک سوال آیا کہ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللّٰہ تعالٰی کی ایسی عبادت کرے گا کہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کررہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہیے؟ اس سوال سے علماءِ عراق حیران اور ششد رہ گئے۔ اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ وہ شخص مکۂ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کرکے اپنی قسم کو پورا کرے۔ اس شافی جواب سے علماءِ عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے۔(بہجۃ الاسرار، ص:226)