- تعارفِ غوثِ اَعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ
- آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نسب شریف
- خاندانِ غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ
- علمِ دین کے حصول کا سفر مبارک سلطان الاولیا حضور غوثِ اعظم
- غوثِ پاک اور علمِ دین
- غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم بحیثیت معلم
- تدریسِ غوثِ اعظم کے نتائج و اثرات:
- دینی طلبائے کرام سے محبتِ غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ
- ا َساتذہ کے لئےدَرس
- غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بیان مبارک کی برکتیں
- غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کاپہلا بیان مبارک
- 40 سال تک استقامت سے بیان فرمایا
- غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بیان مبارک کی تاثیر
- غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آوازمبارک کی کرامت
- شرکائے اجتماع پر غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ہیبت
- پیران پیر کی ادائیں
- بغدادی نسخہ
- غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم بطور ِ خیر خواہ
ایک قافلہ جیلان سے بغداد کی طرف رواں دواں تھا۔ جب یہ قافلہ ہمدان شہر سے آگے بڑھا اور کوہستانی سلسلہ داخل ہوا تو ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اس قافلہ پر حملہ کرکے اہلِ قافلہ کے مال و اسباب کو لُوٹنا شروع کردیا۔ قافلے کے ہر فرد پر خوف و ہراس چھایا ہوا تھا، کسی میں ہمت نہ تھی کہ آگے بڑھ کر ان خونخوار لٹیروں کا مقابلہ کرسکے، اس قافلے میں لگ بھگ 18سالہ ایک خوبرو نوجوان بھی تھا، جس کے چہرے پر نہ خوف تھا نہ پریشانی کی کوئی علامت، اطمینان و سکون کا نور اس کے چہرے سے چھلک رہا تھا۔ ایک راہزن اس نوجوان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا: تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ نوجوان بولا: میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ راہزن نے تیز لہجے میں کہا: مذاق نہ کرو، سچ سچ بتاؤ؟ نوجوان نے کہا: میرے پاس واقعی چالیس دینار ہیں یہ دیکھو! میری بغل کے نیچے دیناروں والی تھیلی کپڑوں میں سِلی ہوئی ہے۔ راہزن نے دیکھا تو حیران رہ گیا، پھر اس نوجوان کو اپنے سردار کے پاس لے گیا اور سارا واقعہ بیان کیا۔ سردار نے کہا: نوجوان! کیا بات ہے لوگ تو ڈاکوؤں سے اپنی دولت چھپاتے ہیں، مگر تم نے کسی دباؤ کے بغیر ہی اپنی دولت ظاہر کر دی؟ نوجوان نے کہا: میری ماں نے گھر سے چلتے وقت مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ بیٹا! ہرحال میں سچ بولنا۔ بس! میں اپنی والدہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نبھا رہا ہوں۔ نوجوان کا یہ جملہ تاثیر کا تِیر بن کر لٹیروں کے سردار کے دل میں پیوست ہوگیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے، اس کا سویا ہوا مقدر جاگ اٹھا، لہٰذا کہنے لگا: صاحبزادے! تم کس قدر خوش نصیب ہوکہ دولت لٹنے کی پروا کئے بغیر اپنی والدہ کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو نبھا رہے ہو اور میں کس قدر ظالم ہوں کہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو پامال کر رہا ہوں اور مخلوقِ خدا کا دل دکھا رہا ہوں۔ یہ کہنے کے بعد وہ ساتھیوں سمیت سچے دل سے تائب ہوگیا اور لُوٹا ہوا سارا مال واپس کردیا۔(قلائد الجواہر، ص 9)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! 18سالہ یہ خُوبرو نوجوان کوئی اور نہیں حضور غوثُ الاعظم حضرت شیخ سیِّد عبدالقادر جیلانیرحمۃ اللہ علیہ تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ طبقۂ اولیا کے سردار ہیں، چمنستانِ صوفیا کے مہکتے پھول ہیں، اس نورانی قافلہ کے سپہ سالار ہیں جس کا ہر مسافر وفادار اور قدرت کے رازوں کاپاسدار ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابو محمد، عبدالقادر جبکہ محی الدین، محبوبِ سبحانی، غوثِ اعظم، غوثُ الثقلین وغیرہ مشہور القابات ہیں۔ غوثیت بزرگی کا ایک خاص درجہ ہے، لفظِ غوث کے لغوی معنی ہیں ”فریاد رس“ یعنی فریاد کو پہنچنے والا چونکہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ غریبوں، بے کسوں اور حاجت مندوں کے مددگار ہیں، اسی لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو غوثِ اعظم کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ عقیدت مند آپ کو ”پیرانِ پیر دستگیر“ کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔(غوثِ پاک کے حالات، ص: 15، ملتقظاً)