Karamat


ڈوبی ہوئی بارات :۔

ایک بارسرکار بغداد حضور سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دریا کی طرف تشریف لے گئے وہاں ایک ۹۰ سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رورہی تھی ،ایک مریدنے بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں عرض کیا:’’مرشدی!اس ضعیفہ کا اکلوتا خوبروبیٹاتھا، بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کرکے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لارہاتھاکہ کشتی الٹ گئی اوردولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی، اس واقعہ کو آج بارہ سال گزر چکے ہیں مگر ماں کاجگر ہے ،بے چاری کاغم جاتا نہیں ہے،یہ روزانہ یہا ں دریا پر آتی ہے اور بارات کونہ پاکر رودھوکر چلی جاتی ہے ۔‘‘ حضورِ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیئے، چند منٹ تک کچھ ظہورنہ ہوا،بے تاب ہوکر بارگاہِ الٰہی عزوجل میں عرض کی: ’’یااللہ عزوجل!اس قدر تاخیر کی کیاوجہ ہے؟‘‘ ارشادہوا:’’اے میرے پیارے!یہ تاخیر خلافِ تقدیرنہیں ہے ،ہم چاہتے توایک حکم ’’کُنْ‘‘سے تمام زمین و آسمان پیدا کر دیتے مگر بمقتضائے حکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈوبے ہوئے بارہ سال ہوچکے ہیں،اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھاچکے ہیں، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں اکٹھاکرواکردوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اب ان کی آمد کاوقت ہے۔‘‘ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچاتھاکہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام ترسازوسامان کے ساتھ بمع دولہا،دلہن وباراتی سطح آب پر نمودار ہوگئی اور چندہی لمحوں میں کنارے آلگی، تمام باراتی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دعائیں لے کرخوشی خوشی اپنے گھر پہنچے، اس کرامت کو سن کربے شمارکفّار نے آ آکر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دستِ حق پرست پراسلام قبول کیا۔

(سلطان الاذکارفي مناقب غوث الابرار)
نکالا ہے پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو
اوراب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ کرامت اس قدر تواتر کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود برصغیر پاک و ہند کے گوشے گوشے میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔

(الحمدلله عزوجل )

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’اگرچہ(یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امرخلافِ شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے۔

(فتاویٰ رضويه جديد، ج۶۲۹،۲۹)