- سخاوت کی ایک مثال
- غریبوں اور محتاجوں پر رحم
- مہمان نوازی
- ہر رات میں ختم قرآن مجید
- عشاء کے وضو سے نمازِ فجر
- سمندرِ طریقت آپ کے ہاتھوں میں
- ظاہری و باطنی اوصاف کے جامع
- شیاطین سے مقابلہ
- ثابت قدمی
- امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کا اظہارِعقیدت
سخاوت کی ایک مثال :۔
ایک دفعہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک شخص کو کچھ مغموم اور افسردہ دیکھ کر پوچھا: “تمہارا کیا حال ہے؟” اس نے عرض کی: ’’حضور والا! دریائے دجلہ کے پار جانا چاہتا تھا مگر ملاح نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔” اتنے میں ایک عقیدت مند نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر تیس دینار نذرانہ پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ تیس دینار اس شخص کو دے کر فرمایا: “جاؤ! یہ تیس دینار اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ “آئندہ وہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرے۔”
غریبوں اورمحتاجوں پر رحم :۔
شیخ عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ایک مرتبہ حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں۔” پھرارشاد فرمایا: “میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے(کہ غریبوں اور محتاجوںمیں تقسیم کردوں اوربھوکے لوگوں کو کھانا کھلادوں۔)
ان کے دروازے کھلے ہیں ہرگدا کے واسطے
مہمان نوازی :۔
روزانہ رات کو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دسترخوان بچھایا جاتا تھا جس پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مہمانوں کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے، کمزوروں کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، بیماروں کی عیادت فرماتے، طلب علم دین میں آنے والی تکالیف پر صبر کرتے۔
پندرہ سال تک ہررات میں ختم قرآن مجید :۔
حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے
اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔‘‘
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقّت طاری ہوئی کہ سر بزانو ہوگیا (یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا: ’’حضور والا! امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟” حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: “تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔” خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا: “عالیجاہ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامورہیں۔”
چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا فرمائی :۔
شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرما کر دو رکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے۔”
سمندرِ طریقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھوں میں :۔
قطب شہیر، سیدنا احمد رفاعی حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: “شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کوئی ثانی نہیں۔”
ظاہری و باطنی اوصاف کے جامع :۔
مفتی عراق محی الدین شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی توحیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جلد رونے والے، نہایت خوف والے، باہیبت، مستجاب الدعوات، کریم الاخلاق، خوشبودار پسینہ والے، بُری باتوں سے دُور رہنے والے، حق کی طرف لوگوں سے زیادہ قریب ہونے والے، نفس پر قابو پانے والے، انتقام نہ لینے والے، سائل کو نہ جھڑکنے والے، علم سے مہذب ہونے والے تھے، آداب شریعت آپ کے ظاہری اوصاف اور حقیقت آپ کا باطن تھا۔‘‘
شیاطین سے مقابلہ :۔
شیخ عثمان الصریفینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: “میں نے شہنشاہِ بغداد، حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان مبارک سے سنا کہ ’’میں شب و روز بیابانوں اور ویران جنگلوں میں رہا کرتا تھا میرے پاس شیاطین مسلح ہو کر ہیبت ناک شکلوں میں قطار در قطار آتے اور مجھ سے مقابلہ کرتے، مجھ پر آگ پھینکتے مگر میں اپنے دل میں بہت زیادہ ہمت اور طاقت محسوس کرتا اور غیب سے کوئی مجھے پکار کر کہتا: “اے عبدالقادر! اُٹھو ان کی طرف بڑھو، مقابلہ میں ہم تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اور تمہاری مدد کریں گے۔” پھر جب میں ان کی طرف بڑھتا تو وہ دائیں بائیں یا جدھر سے آتے اسی طرف بھاگ جاتے، ان میں سے میرے پاس صرف ایک ہی شخص آتا اور ڈراتا اور مجھے کہتا کہ “یہاں سے چلے جاؤ۔” تو میں اسے ایک طمانچہ مارتا تو وہ بھاگتا نظر آتا پھر میںلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِپڑھتا تو وہ جل کر خاک ہو جاتا۔”
حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ثابت قدمی :۔
حضرت قطب ربانی شیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی نے اپنی ثابت قدمی کا خود اس انداز میں تذکرہ فرمایا ہے کہ “میں نے(راہِ خدا عزوجل میں) بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔”
سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اظہارِ عقیدت :۔
حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “میں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور شیخ بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روضۂِ اقدس کی زیارت کی، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قبر سے باہر تشریف لائے اور حضور سیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے سینے سے لگالیا اور انہیں خلعت پہنا کر ارشاد فرمایا: “اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں علم شریعت، علم حقیقت، علم حال اور فعل حال میں تمہارا محتاج ہوں۔”